*ذوالحجۃ کے مہینے کے پہلے دس دنوں کے فضائل و احکام*

 *ذوالحجۃ کے مہینے کے پہلے دس دنوں کے فضائل و احکام* 



 *از مفتی محمد کامران صدیق* 

 *دارالافتاء والارشاد آس اکیڈمی،لاہور*

 

 *ذوالحجۃ کے پہلے دس دن رمضان المبارک کے دنوں سے بھی افضل ہیں* *جبکہ ہم ان دنوں کو عام دنوں جیسا گزار دیتے ہیں* ، یہ دن پورے سال میں سے قیمتی ایام ہیں ، ان کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا: ذوالحجۃ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا تو یہ افضل ہے)۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ 

(لہذا ان دنوں میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے ، استغفار کرنے ، تسبیح کرنے ، اور درود شریف پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے ، حسب توفیق کثرت سے نوافل ادا کئے جائیں ، اگر قضا نمازیں ذمہ میں باقی ہیں تو ان کو پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے)

ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجۃ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔


احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجۃ کے ابتدائی ایام میں ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ (9 ذوالحجۃ)کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

ماخذہ جامع ترمذی

جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اس کے لیے ذی الحجہ کاچاند ہو جانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے، چناں چہ حدیث شریف میں ہے:


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا ،”یارسول اللہ !ان جانوروں کی قربانی میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے؟“ فرمایا، ”ہر *بال کے بدلے ایک نیکی ہے “۔عرض کیا ، ”اور اُون میں“؟ فرمایا، ”اس کے ہر ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے* “۔ابن ماجہ


'' حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے ''۔(صحیح مسلم )

یہ ممانعت تنزیہی ہے ، لہذا عشرہ ذوالحجۃ میں بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا ترکِ اولیٰ ہے، یعنی اگر کسی نے ذوالحجۃ شروع ہو جانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ خلافِ اولیٰ کہلائے گا۔ اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

مستفاد دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی

*پیشکش : مستورات آن لائن اکیڈمی 🌹*

Comments