عمران نیازی اور اسکی ساری کابینہ پر
🥷🖐️🖐️🖐️🖐️🖐️🖐️🥷
اسلام قبول کرنے پر سزا کا نیا مجوزہ قانون ۔۔
حکومت کی جانب سے prohibtion of forced conversion bill2021 کےمجوزہ ڈرافٹ کیلئےپارلیمنٹ میں لابنگ کی جا رہی ہے،
مجوزہ بل کےمطابق18سال سےکم عمرفرداسلام قبول ھی نہیں کرسکتا،
جبکہ 18سال سےزائد عمرکےجولوگ اسلام قبول کرینگے،
وہ پہلے سیشن جج کودرخواست دینگے اور 90 دن جج کی نگرانی میں تقابل ادیان کامطالعہ کرینگے ۔
پھر دوبارہ اپنی رضامندی بتائیں گے ۔
اس کےبعداس سےپوچھاجائےگا,
اگروہ اسلام قبول کرنےسےانکارکردے
تو جس شخص نے یا جماعت نے اسے اسلام کی تبلیغ کی تھی
ان لوگوں کیخلاف فوراً جبری تبدیلی مذہب کامقدمہ درج ھوگا
کئی سال قید و جرمانہ کیاجائےگا۔
اس سے تو یہی لگتا ھے کہ یہ تبدیلی مذہب کوروکنےکا بل نہیں،
بلکہ اسلام قبول
کرنےسےجبراًروکنےکابل ہے
جبکہ جس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اس کے لیے سخت سزائیں ۔
اس قانون کے بعد عام آدمی ایسا رسک لے گا بھلا ۔؟
جسکو اسلام کی دعوت دی تھی جب وو 90 دن بعد پیش ھوگا تو اس 90 دن کے دوران اسکا خاندان ۔ اور یہ لا دین قسم کی این جی اوز اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں اس کو دوبارہ پرانے مذہب کیلئے قائل کر لیں گیں ۔
مقدمہ درج ہو گا اس پر جس نے تبلیغ کی ہو گی ۔ اسے مجرم قرار دیا جائے گا ۔ سخت ترین سزا بھی ملے گی ۔۔
اسلام قبول کرنے کی اتنی سخت سزا تو یورپ میں بھی نہیں ھے
سینیٹر مشتاق احمد نے
بھی اس بارے نشاندہی کی ہے
دینی جماعتوں اور حلقوں کو اس بارے میں لائحہ عمل بنانا ہو گا ۔ یہ نہ ہو کہ منظور ہونے کے بعد پتہ چلے
اب بھی جو لوگ اس یہودی و قادیانی نواز حکومت سے محبت رکھیں ۔ اور صرف اس خبیث النسل نیازی کی تقریروں سے ھی خوش ہوتے رہیں ۔ انہیں اپنے اوپر تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ھے ۔
کہ پھر لعنت کے حقدار وو لوگ بھی ہیں 😡😡😡😡😡
اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کا بنادیا
انصار عباسی
آج کا اخبارادارتی صفحہ13 ستمبر ، 2021
FacebookTwitterWhatsapp
وٹس ایپ کے ذریعے کچھ ایسا مواد پڑھنے کو ملا جس کا پیغام کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔ میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں:
بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔
جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔
مذہب کی تبدیلی کی عمر:- کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔
عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔
جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
https://jang.com.pk/news/983870
تحریک لبیک کے سربراہ کو غیر قانونی طور پر جیل میں رکھا ھوا ھے ثبوت ھے کوئی نہیں کیس سماعت نہیں کیا جارہا کیس نہیں سن سکتے تو استعفیٰ دو اور گھر جاؤ اوریا جان عدلیہ بیورو کریسی اور حکومت پر برس پڑے
حکومت جبری مسلمان ہونے پر بل پیش کر رہی ہے
سوال یہ ہے کہ دین میں تو جبر منع ہے اور آج تک کوئی زبردستی مسلمان نہیں ہوا؟
کیا ایسے قوانین عیسائیت، یہودیت، ہندو مت، یورپ، امریکہ و دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں؟
یہ خیالات صرف پاکستانی حکومت کو ہی کیوں آتے ہیں؟
Comments
Post a Comment