واقعۂ معراج اور سب معراج کےنوافل



شب معراج قرآن و حدیث سے ثبوت

فیضان معراج


 واقعۂ معراج، اللہ تعالٰی کی زبردست قوت اور اس کائنات

 کی ہر اک شے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر زبردست اور فیصلہ کن دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا اندازہ آپ ایسے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کو حضور پاک ﷺ کے اس کائناتی سفر کی تکمیل کے لیے کسی دھاتی خول، کششِ ثقل کی قوتوں کے توڑ کے لیے راکٹ انجن، خلائی لباس، آکسیجن ماسک، سیٹ بیلٹس اور مدار کی قوتوں کی جمع تفریق کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ اللہ تعالٰی ہی کے بنائے ہوئے دیگر کائناتی قوانین اللہ تعالٰی کے حکم کی خود کار تکمیل کے لیے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے براق پر حضور پاک ﷺ کو سوار کیا اور یہ سفر یقینًا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سفر کی دعا کے بعد کسی بھی ناگہانی حادثے سے مبّرا مکمل بے فکری کے ساتھ آگے کی منزلوں کی طرف شروع ہوا۔ 

واقعۂ معراج، اللہ تعالٰی کی طرف سے واضح طور پر کُن فیکون کا مظہر ہے۔ اس واقعے سے ثابت ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے کسی حکم کو نافذ کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو کسی بھی قسم کی کوئی کمزوری، کوئی مجبوری، کوئی عذر، کوئی تنگئ وقت اس کے آگے تاب نہیں لاسکتی۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:

’’پاک ہے (یعنی ہر کمزوری سے مبرّا ہے) وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں۔‘‘

سوال یہ ہے کہ قدرت کے نمونوں کا ادراک تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی، خواب یا کسی اور طریقے سے بھی کرایا جا سکتا تھا، جو بہ دستور اپنی جگہ مستند اور قابلِ یقین ہی ہوتا مگر اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح حضور پاک ﷺ کو عین الیقین اور حق الیقین کی منزل پر لے جانا تھا لہٰذا یہ طریقہ اپنایا گیا۔ حضور پاک ﷺ اللہ تعالٰی کے مہمان بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قُرب کی انتہاء نصیب ہوئی۔ عرشِ معلیٰ پر وقوع پذیر ہونے والی یہ مہمان نوازی کس قدر شان دار ہے۔ یہاں اس دنیا میں ہی اللہ تعالٰی تو انسان کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے اور حضور پاک ﷺ کے ساتھ اللہ تعالٰی کا یہ قُرب کسی بھی شک سے بالا تر تھا تو پھر اس طرح سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کے کیا معنی ہیں؟

قرآنِ مجید کی بیان کردہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت کے تحت، قربتوں کا یہ پیمانہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں کے ذریعے اللہ تعالٰی کی نعمتِ علم تک رسائی کی وہ آخری حد پا لینا تھا، جو عین الیقین اور حق الیقین کی صورت بالآخر اس ساری کائنات میں صرف اور صرف آپ کو نصیب ہوئی اور یوں وہ بے مثال نعتِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تکمیل کو پہنچی جو خود اللہ تعالٰی نے آپ کے اسوۂ حسنہ کی صورت تحریر فرمائی اور چوں کہ اسی حق الیقین کو آپ نے اپنی امت تک پورے صدق اور خلوص کے ساتھ تفویض کرنا تھا، اس لیے آپ نے اپنی امت میں اس عین الیقین اور حق الیقین کے تقاضوں کو ان کی زندگی میں دیکھنا چاہا۔ آپ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ کو کسی بات پر ہنستے دیکھا تو فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں، تم دیکھ لو تو، تم کم ہنسو اور زیادہ روو۔

معراج میں آپ نے کس قسم کے علمی حقائق کا سامنا کیا، اس کی ایک مثال پیشِ خدمت ہے۔ ہر آسمان پر پہنچنے پر آپ اور حضرت جبرائیل اپنے آپ کو ایک دروازے پر پاتے، دروازے کو کھٹکھٹایا جاتا تو سوال ہوتا کہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل جواب میں فرماتے کہ میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا جاتا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل جواب میں کہتے کہ یہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر پوچھا جاتا کہ کیا یہ بلائے گئے ہیں؟ پھر فرمایا جاتا: ہاں۔ جواب ملتا کہ آنا مبارک ہو اور دروازہ کھول دیا جاتا۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے آپ کے ذریعے اپنی امت تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اللہ تعالٰی کے ہاں ہر کام ایک منظم انداز میں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے فرشتے اپنے ہر ایک فرض کو اس کی ادائی کے آخری معیار تک سر انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے اور سب کام ایک قانون اور ضابطے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔

معراجِ النبی کا ایک پہلو نہ صرف خود حضور پاک ﷺ کے لیے بلکہ ہم عام مسلمانوں کے لیے بھی ذریعۂ آزمائش ہے۔ جب آپ نے لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہا تو ابوجہل جیسے جاہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے اس بات پر خوب قہقہے لگائے کہ لیجیے پہلے اگر کوئی کمی تھی، تو وہ اب کے پوری ہوگئی کہ حضرت محمد تو دیوانوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔

(نعوذ باللہ)

دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے ایمان والے جلیل القدر صحابی نے فوراً اس سفر اور اس کی بیان کردہ تفاصیل کی تصدیق کر دی۔ ابوجہل جہنم رسید ہوا، جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دنیا ہی میں جنت اپنے نام لکھوا گئے۔ آج کل کے ابوجہل یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ جب کچھ کرنا چاہتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، تو پھر ہر صورت اس ان ہونی کو ہوجانا پڑتا ہے۔

معراج کا اصل درس اللہ تعالٰی کی کائنات پر مکمل بلاشرکت غیرے حکم رانی ہے۔ وہ مالکِ دوجہاں اور مختارِکُل ہے۔ اسے کسی بھی کام کے لیے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بے نیاز اور خود مختار ہے۔ اس واقعۂ معراج سے ہمیں حضور سرور کائنات ﷺ کے مقام و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں اللہ تعالٰی کی کائنات ہے، وہاں حضور سرور کائنات ﷺ رحمۃللعالمین ہیں اور اللہ تعالٰی کے دربار میں ان ہی اعمال کو شرفِ قبولیت بخشا جائے گا جو آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیے جائیں گے۔

اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

طور پر کوئی، کوئی چرخ پہ، یہ عرش سے پار

سارے بالاؤں پہ بالا رہی بالائئ دوست


اللہ رب العزت! ہمیں اپنے محبوب ﷺ کی تمام کمالات و معجزات کو ماننے کے ساتھ ساتھ آپ کی کماحقہ اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الکریم  الامین صلی اللہُ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔

Comments