*شب برات میں عبادت کا ثبوت از حدیث

























مغرب کے بعد کے چھ نوافل👇👇👇
https://drive.google.com/file


 *تقدیر کی اقسام*

*کونسی تقدیر تبدیل ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں؟* 

*حوالہ از قرآن و حدیث و اقوال صحابہ کرام*

👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻جوابات


(1) مُبْرمِ حقیقی: یہ وہ قسم ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علم اورحکم میں اَٹل ہے اور کسی کی دُعا یا کوئی نیک کام کرنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ جیساکہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:


(مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ )ترجمۂ کنز الایمان:  میرےیہاں بات بدلتی نہیں۔ (پ26،ق:29)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)



(2) معلّق شبیہ  بہ مُبْرَم: یہ قِسم تبدیل تو ہوسکتی ہے لیکن اس کی تبدیلی صرف اللہ عَزَّوَجَلَّکے علم میں ہوتی ہے مُقَرَّب فرشتے بھی اس کی تبدیلی سے لا علم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مُبْرَم کے مُشابہ ہوتی ہے۔ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّکے خاص بندوں کی دعا اورالتجا کےسبب تبدیل ہوجاتی ہے۔


ولی کی دعا سے شقی، سعید ہوگیا(حکایت): منقول ہے حضرت مجدد الف ثانیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بیٹوں  کا ایک استاد تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کشف کے ذریعے دیکھا کہ اس کی پیشانی پر شقی (بدبخت ) لکھا ہوا ہے، اس کا تذکرہ اپنے بیٹوں سے کیا، بیٹوں نے  مؤدّبانہ عرض کی: آپ ان کی خوش بختی  کی دعا فرمائیں، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے  ان کے لئے دعا کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّنے آپ کی دعاکی برکت سے ان کی شقاوت (بدبختی ) کو سعادت (خوش بختی ) سے  بدل دیا۔(تفسیر مظہری، پ13، الرعد، تحت الایۃ :39)


(3)مُعَلَّق محض: اس میں تبدیلی علمِ الٰہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے علم اور ان کے صُحُف (رجسٹروں) میں مذکور ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین یا اولیا کی دعا یا نیک کام وصدقہ وخیرات کرنے سے ٹل جاتی ہے۔(ماخوذ از بہارِ شریعت،ج1،ص12)


دوسری اور تیسری قسم کاتبدیل ہونا قراٰنِ پاک اور حدیثِ مبارکہ سےثابت ہے جیساکہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:


( یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ جو چاہے مٹاتااور ثابت کرتاہے۔(پ 13، الرعد: 39)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)



اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے: فَاِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَم بیشک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے۔(الترغیب  فی فضائل الاعمال ، ج1،ص54، حدیث:150) (قضا کی ان تین اقسام کابیان المعتمد المستند اور مکتوبات امام ربانی، ج1،ص123 تا 124،مکتوب نمبر:217میں بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔)


تدبیرکرنا تقدیر کے خلاف نہیں ہے:تقدیر کی ان اقسام کوسمجھ لینے سے اس سوال کہ ”اگر بیماری، تکلیف، بے روزگاری ہماری تقدیر میں لکھ دی گئی ہےتو ہم علاج کیوں کریں؟ یا روزگار کیوں تلاش کریں؟“ کا جواب بھی مل گیا  ہوسکتا ہے کہ تقدیر میں یہ لکھا ہوکہ اگر یہ فُلاں علاج کرے گا تو صحت یاب ہوجائے گا یا اپنے ماں باپ کی خدمت کرے گا تو اس کی تکلیف یا بے روزگاری دور ہوجائے گی لیکن ہمیں اس بات کا عِلْم نہیں، لہٰذا ہمیں تقدیر پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ دین ودنیا کی بھلائیاں حاصل کرنے کے لئے  تمام جائز تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور ایک بہترین تدبیر دعا کرنا بھی ہے۔


حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما  دعا کیا کرتے تھے: اَللّٰهُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِيْ شَقِيّاً فَامْحُنِيْ وَاكْتُبْنِيْ سَعِيْداً۔ اے اللہ! اگر تو نے مجھے بد بخت لکھ دیا ہے تو اس بات کو مٹا دے اور مجھے خوش بخت لکھ دے۔(شرح اربعين نوویہ،ص

31)

 *کیا اللہ تعالی شعبان کی پندرہ کو آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے ؟* 


نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً)

 *ضعیف حدیث کو جھوٹا کہنے والا سب سے بڑا جھوٹا ہوتا ہے*

: نماز پڑھنا فرض ہے 

نماز فارسی زبان کا لفظ ہے اس سے مراد یہ نہیں لیا جاسکتا کہ لفظ نماز قرآن و حدیث میں نہیں ہے اس لیے یہ عبادت صحیح نہیں بلکہ نماز کو عربی میں صلواة بولا جاتا ہے اور صلواة کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے ۔


اسی طرح شب کے عربی میں معنی لیل کے ہیں اور شعبان کی 15 شب کے عربی میں جو  معنی ہیں وہ استعمال ہوۓ ہیں حدیث میں ۔

15 شعبان کا روزہ فرض نہیں اور کوٸی رکھ لے تو گناہ نہیں 

اور رکھنے والے کو گناہگار سمجھنا گناہ ہے 

 اور اس گناہ کی سختی اس کی نیت کے اعتبار سے ہے کہ وہ کس نیت سے گناہ سمجھتا ہے لیکن کم از کم گناہ لازمی ہے اور اس کی نیت کے اعتبار سے وہ کفر بھی ہوسکتا ہے ۔

نماز پڑھنا فرض ہے 

نماز فارسی زبان کا لفظ ہے اس سے مراد یہ نہیں لیا جاسکتا کہ لفظ نماز قرآن و حدیث میں نہیں ہے اس لیے یہ عبادت صحیح نہیں بلکہ نماز کو عربی میں صلواة بولا جاتا ہے اور صلواة کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے ۔


اسی طرح شب کے عربی میں معنی لیل کے ہیں اور شعبان کی 15 شب کے عربی میں جو  معنی ہیں وہ استعمال ہوۓ ہیں حدیث میں ۔

برات سے مراد نجات ہے اور شب برات میں حدیث کے مطابق اللہ تعالی عزوجل بندوں کی بخشش فرماتا ہے ۔


حرام کے معنی حرمت والا بھی ہے اور ایسی چیز جس سے بچا جاۓ مطلب نامناسب 


مسجد حرام میں لفظ حرام کا معنی حرمت و عزت والی جگہ


شراب حرام ہے مطلب ممنوع ہے ۔

 *موت کا فیصلہ شب برات میں*👇🏻


امام بغوی نے نبی اکرم (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع روایت نقل کی ہے کہ آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:


شعبان سے شعبان تک اموات لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کے گھر اولاد پیدا ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مُردوں میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔


تفسير ابن ابی حاتم، 10: 3287، رقم: 18531

*منکرین حدیث کا نیا حربہ*

ضعیف حدیث کا مطلقاً انکار آج کے دور کا ایک بڑا فتنہ ہے۔اور منکرین حدیث کا نیا روپ بھی۔ دور اول میں اس فتنے کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن آج اس فتنے کو ہوا دینے والے جگہ جگہ موجود ہیں۔

*شب برات میں عبادت کا ثبوت از حدیث*👇🏻👇🏻

امام ابن ماجہ اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:


جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو قیام کرو اور اس کی صبح کا روزہ رکھو کیونکہ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت غروب آفتاب سے لے کر آسمان دنیا پر آکر پکارتی ہے: ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی رزق کا طالب میں اس کو رزق دوں، ہے کوئی بیمار جو شفا طلب کرے، میں اس کو شفا دوں، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔


سنن ابن ماجه، کتاب ماجآء فی شهر رمضان، باب ماجآء فی لیلة النصف من شعبان

Comments