ٹی ایل پی کی میڈیا مینجمنٹ اور حلقہ این اے 240 کا الیکشن:

 ٹی ایل پی کی میڈیا مینجمنٹ اور حلقہ این اے 240 کا الیکشن:




ہر سیاسی جماعت کا میڈیا سیل پروفیشنلز چلاتے ہیں


اور تحریک لبیک کا میڈیا سیل والنٹیئرز یعنی رضاکار چلاتے ہیں


اس وجہ سے پرفارمنس میں فرق صاف دکھائی دیتا ہے


عام حالات میں تو ہمارے والنٹیئرز میڈیا سنبھال لیتے ہیں 


لیکن جب کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو میڈیا انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا سسٹم بیٹھ جاتا ہے


اور ہم بھی یہودی سازش، عالمی سازش، وغیرہ کے مفروضے گھڑ کر اپنے آپ کو مطمئن کردیتے ہیں


فیض آباد دھرنا ہو

الیکشن 2018 ہو

ہالینڈ کے خلاف لانگ مارچ 2018 ہو

اکتوبر، نومبر 2018 کے دھرنے ہوں

نومبر2018 کریک ڈاؤن ہو

2019 کی گرفتاریاں ہوں

2020 کے فرانس کے خلاف دھرنے ہوں

2021 کے دھرنے ہوں، کریک ڈاؤن ہو

امیر محترم کی سات ماہ کی قید ہو

شہداء کی شہادتیں ہو


ہم ہر بڑے ایونٹ پر میڈیا کو مینیج کرنے میں ناکام رہے ہیں


16 جون کو عجیب صورتحال تھی


ہمارے امیر محترم کی گاڑی پر اسٹیٹ فائر ہوئے


کسی چینل نے فائرنگ کی ویڈیو نہیں چلائی


اے آر وائی نے تو ہمارا موقف ہی نہیں لیا

انگریزی اخبارات نے بالعموم ٹی ایل پی کا بائیکاٹ کیا

اردو اخبارات نے بھی الیکشن کی جائز کوریج نہیں کی


وجہ یہ ہے کہ 

ٹی ایل پی کے میڈیا ہاؤسز کے ساتھ روابط ہی نہیں ہیں


میرا ٹی ایل پی قیادت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ


لسٹ بنا کر 

(پیمرا کی ویب سائٹ سے لسٹ مل سکتی ہے)

تمام چینلز کے ہیڈ آفس کو وزٹ کیا جائے


بڑے اخبارات کے دفاتر کو وزٹ کیا جائے


بی بی سی اردو، اردو پوائنٹ، ہماری ویب، انڈیپینڈنٹ اردو، وائس آف امریکا، ڈی ڈبلیو وغیرہ کے دفاتر کو وزٹ کیا جائے


مرکزی سطح پر میڈیا مانیٹرنگ کا نظام بنایا جائے تاکہ مثبت خبر پر شکریہ اور منفی خبر پر "بروقت" احتجاج کیا جائے اور ممکنہ صورت میں خبر میں اپنا موقف شامل کرایا جائے


یہ کام ایک بندے کے بس کی بات نہیں ہے، مکمل ٹیم کا کام ہے


اب اگر ٹی ایل پی قیادت یہ کہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں۔۔۔


تو جناب

اگر آپ کے پاس الیکشن لڑنے کے پیسے ہیں

اگر آپ کے پاس تاریخ کے بڑے جلسوں کے انتظامات کے پیسے ہیں


تو پھر آپ کے پاس میڈیا مینجمنٹ کے لیے رقم بھی ضرور ہونی چاہیئے


اگر آپ میڈیا پر ڈھنگ سے کام نہیں کریں گے

تو پھر یہی ہوگا کہ گولیاں بھی ہمارے کارکن کھائیں گے اور دہشت گرد بھی ہمیں بھی قرار دیا جائے گا



ایک تصویر وائرل ہوئی ہے

جس میں کچھ ٹی ایل پی کارکنان کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔۔۔ اور وہ بھاگ رہے تھے


یہ تصویر ڈان میں بھی شائع ہوئی


یہ تصویر AP کے ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر شکیل عادل نے کھینچی تھی


شکیل عادل کراچی کا سب سے بہترین نیوز فوٹو گرافر ہے


اس نے درجنوں تصاویر ایسی بھی کھینچی ہوگی جس میں ایم کیوایم اور پی ایس پی کے دہشت گرد دکھائی دے رہے ہونگے


لیکن اس نے یہ تصاویر ڈیلیٹ کردی ہونگی


وجہ یہی ہے کہ اس کو علم ہے کہ میں نے اپنے ادارے میں یہ ایم کیوایم یا پی ایس پی کی فوٹو بھیجی اور ادارے نے چلادی تو یہ پارٹیاں احتجاج کریں گی، غصہ کریں گی


اور شکیل عادل کو یہ بھی علم تھا کہ لبیک کے کارکن کی فوٹو چلادوں۔۔۔ تو لبیک والے کوئی مسئلہ نہیں کریں گے۔۔۔ کوئی پوچھنے بھی نہیں آئے گا 


پلیز ان معاملات کی حساسیت کو سمجھا جائے


کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اس سے دگنے وائلنس، تشدد، بدمعاشی اور میڈیا ٹرائل کی تیاری کرلیں


وہاں تو پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے غنڈے اور میڈیا ورکرز بھی ہونگے


اور میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ جماعت اسلامی ایم کیوایم سے دگنا فساد کرے گی


اور میڈیا ٹرائل بھی کئی گنا بڑھ کر ہوگا


بہتر ہے کہ اس صورتحال کی تیاری کی جائے

_امیر محترم نے صحافی کے اس سوال پر کیا ہی خوبصورت جواب دیا_*

Comments