شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

 پارلیمینٹ میں تہلکہ آمیز خطاب :۔



29جون 1993 بمطابق ٨محرم کو قومی اسمبلی میں اجلاس ہو رہا تھا۔

 

اس دوران شیعہ ممبران اسمبلی نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ آج 8محرم ہے اور یہ سوگ کے دن ہیں،ماتم کے دن ہیں لہٰذا فوری اجلاس برخواست کیا جائے تاکہ ہم اپنے علاقوں میں جا کر غم حسینؓ منا سکیں تو حکومت لا جواب ہو کر رہ گئی۔

اس پر ایک دیوانہ،  باہمت مرد، وقت کا کوہِ گراں، ثانی امام احمد بن حنبلؒ، جبل استقامت

 #علامہ_محمداعظم_طارق_شہیدؒ نے اسمبلی میں ایک تقریر کی جس نے تہلکہ برپا کر دیا۔۔

تقریر ملاحظہ فرمائیں۔



جناب سپیکر۔۔۔۔۔سب سے پہلے خوشی کی بات ہے کہ آج سارے کا سارا ہاٶس اللہ کے فضل سے حسینی ہے،ہر بات سے اختلاف ہو سکتا ہے۔۔۔۔لیکن کیا آج ہم ایک قرارداد نہ پیش کر دیں کہ آج کے بعد جو طرز حکومت،جو انداز زندگی،جو اسلوب،اور روشن نقوش،حضرت حسین نے چھوڑے ہیں،ہم ان سے انخراف کرکے۔۔۔۔۔کمیونزم،سوشلزم،اور باقی ازم جو ہم نے بنائے ہوئے ہیں۔۔۔۔ان پر لعنت بھیجتے ہیں اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔۔۔

آج چلو اس بات پر تو قرارداد پاس کریں۔۔۔۔حضرت حسینؓ نے عظیم مقصد کیلئے قربانی دی۔۔۔۔لیکن آج مقاصد کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔۔۔۔صرف اپنے مفاد کے حصول کیلئے نام لئے جاتے ہیں۔۔۔۔پہلی بات مذہبی طور پر میں عرض کرنا چاہوں گا۔۔۔۔شہادت نعمت ہے یا مصیبت؟۔۔۔۔۔اگر شہادت مصیبت ہے۔۔۔۔تو رویا جائے گا،ماتم کیا جائے گا،پیٹا جائے گا۔۔۔۔۔۔اور اگر شہادت نعمت ہے۔۔۔۔۔تو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔۔۔۔شہادت نعمت ہے،اور شہید زندہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔


شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ  مال  غنیمت   نہ   کشور  کشائی



تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ یہاں سے پہلے کیوں نہ شروع کریں۔۔۔۔آج طے کر لیں کہ شہادت کے دن سے پہلے سوگ منانا ہے یا بعد میں۔۔۔۔پہلے منانا ہے تو کتنے دن پہلے شروع کریں۔۔۔۔اور بعد میں کتنے دن تک لے جانا ہے۔

اسلام کی تاریخ شہیدوں کے خون سے رنگین ہے۔۔۔۔کیا تاریخ اسلام میں ایک ہی امام مظلوم حضرت حسینؓ ہیں۔۔۔۔نہیں آپ کو اسی تاریخ میں یہ مظلوم بھی نظر آئے گا کہ جس کے در اقدس پر۔۔۔۔حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پہرہ دیتے رہے۔۔۔۔جو چالیس دن تک پیاسے رہ کر پیغمبرﷺ کے شہر میں 44لاکھ مربع میل پر حکمران رہے۔۔۔۔جب حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تھے۔۔۔۔آج اس دن عید منائی جاتی ہے۔کیوں ہوا اجلاس اس دن جس دن حضرت عثمانؓ کی شہادت کا دن تھا؟

کیوں ہوا اجلاس یکم محرم کو۔۔۔۔۔۔ جو یکم محرم امام عدل و حریت حضرت فاروق اعظمؓ کی شہادت کا دن ہے۔۔۔۔۔کیوں ہوا اجلاس اسی ہاوس میں اس دن کو۔۔۔جو 21رمضان المبارک جناب حضرت علی المرتضیؓ کی شہادت کا دن ہے۔۔۔۔

کیوں ہوا اجلاس 22 جمادی الثانی کو۔۔۔۔جو 22 جمادی الثانی صدیق اکبرؓ کی وفات کا دن ہے۔

اور کیوں ہوا اجلاس اس دن۔۔۔۔پیغمبر اسلامﷺ کے فرمان کے مطابق سیدالشہداء حضرت حمزہؓ کی شہادت کا دن ہے۔۔۔۔جن کو تمام شہیدوں کا سردار آپ نے نہیں میرے پیغمبرﷺ نے کہاتھا۔

ان شہیدوں کے ایام پر اجلاس کیوں ہوئے؟۔۔۔۔آو آج طے کرو کہ ہم تاریخ اسلام کےان عظیم شہیدوں کی شہادت پر اجلاس نہیں کریں گے۔۔۔۔یا پورے ملک میں تعطیل کریں گے۔۔۔۔اور اگر ان شہیدوں کی شہادت پر اجلاس کیا جائے گا۔۔۔۔تو پھر تمہیں یہ اپنا انداز اور طریقہ کار بھی بدلنا پڑے گا۔

یہ کیا جمہوریت ہے؟۔۔۔۔آج ہم باقی سنی لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔۔۔۔ہمارے دل میں چھریاں چلتی ہیں کہ جب فاروق اعظمؓ کی شہادت کا دن ہوتا ہے۔۔۔کوئی پوچھنے والا نہیں،حضرت عثمانؓ کی شہادت کا دن ہوتا ہے۔۔۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اور دوسری بات اگر آپ تاریخ اسلام دیکھیں۔۔۔۔تو کوئی دن بھی شہادت سے خالی نظر نہیں آئے گا۔۔۔چھٹی کیجیے گھروں کو چلتے ہیں سارے دن تو شہیدوں کے دن ہوتے ہیں۔۔۔۔کیا شہیدوں نے ہمیں چھٹی کرنا سیکھایا ہے۔۔۔شہیدوں نے ہمیں درد دیا ہے۔۔۔۔

آیئے دس محرم کو اجلاس رکھیے۔۔۔۔اور یہاں بیٹھ کر فیصلہ کیجیے کہ حسینؓ جس عظیم مقصد کیلئے تونے جان دی ہے۔۔۔ہم ترے عظیم مقصد یعنی اسلام کیلئے۔۔۔۔اسلام کے خلاف جو سازشیں اٹھائی گیئں۔۔۔۔جو اسلام کے خلاف کسی انداز سے کوئی سازش سامنے آئے گی۔۔۔۔تو ہم اس کا بیڑہ غرق کر کے دم لیں گے۔۔۔ہم انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔۔۔یہ عزم اسی حال میں دس محرم کو کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔اسی حال میں دس محرم کو یہ اجلاس ہو۔۔۔۔اور ہم فیصلہ کریں کہ حسینؓ نے ہمیں رونے کے لیے نہیں چھوڑا۔۔۔۔حسینؓ نے ہمیں پیٹنے کیلئے نہیں چھوڑا۔

کیا بات ہے آج حسینؓ کا نام وہ لیتے ہیں۔۔۔۔جنہیں نمازیں نصیب نہیں۔۔۔۔قرآن کی تلاوت نصیب نہیں۔۔۔۔آج سیدہ زینبؓ اور سیدہ ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ کی بات وہ کرتے ہیں۔۔۔۔جن کے رات کی تاریکی میں جنازے اٹھے۔۔۔۔۔اور تمہارے دن کے اجالے میں بال بکھرتے رہتے ہیں۔۔۔۔کیا تعلق ہے؟۔۔۔۔کیا نسبت ہے؟۔۔۔۔کیا تعلق ہے ان عظیم شخصیات سے؟۔۔۔۔۔ان سے تعلق ہے۔۔۔۔۔تو آج طے کرنا ہوگا۔۔۔۔۔تو آیئے میں قرارداد پیش کرتا ہوں کہ اس ملک میں۔۔۔۔قرآن و سنت نفاذ اسلام جو پیغمبرﷺ کی وراثت ہے۔۔۔۔جس کے لیے امام حسینؓ نے جان دی تھی۔

ہم اس کے خلاف۔۔۔۔۔کوئی آواز نہیں سنیں گے

ہم اس کے خلاف۔۔۔۔۔کوئی قانون برداشت نہیں کریں گے

ہم اس کے خلاف۔۔۔۔۔کسی کو کوشش کرنےکی جرات نہیں دیں گے

یہ حسینیت ہے۔۔۔۔اور اگر۔۔

نام حسینؓ کا لیا جائے۔۔۔۔۔فحاشی عام ہو

نام حسینؓ کا لیا جائے۔۔۔۔۔رشوت عام ہو

نام حسینؓ کا لیا جائے۔۔۔۔۔بے حیائی عام ہو

نام حسینؓ کا لیا جائے۔۔۔۔۔شراب کا دور چلے

نام حسینؓ کا لیا جائے۔۔۔۔۔رات کو شراب و کباب کی محفلیں جمیں

یہ حسینی نہیں ہیں۔۔۔۔۔

ان کا حسینؓ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔حسین سے تعلق اسی کا ہے۔۔۔۔۔جو حسینؓ کے کردار کو اپناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ جناب سپیکر


بحوالہ علامہ اعظم طارق شہید کی قومی اسمبلی کی تقریریں (صفحہ 11, 12)

Comments