یہ کڑوا سچ ہے😳
*ٹرانس جینڈر ایکٹ/ ہم جنس پرستی کے جواز کا قانون جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کا کردار* ‼️‼️
*تحریر و تحقیق* 💯
*گمنام مجاھد*
21 ستمبر 2022 بدھ
پچھلے چند دنوں سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد صاحب ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالفت کرکے ہیرو بننے کی کوشش کر رہے ہیں
جماعت اسلامی بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے
بلاشبہ یہ ایکٹ احکامات شریعہ سے متصادم ہے اور
اسکی ضرور مخالفت کی جانی چاہیئے
لیکن
یہ لوگ اس حوالے سے کس قدر مخلص ہیں
چند حقائق جان لیں
ٹرانس جینڈر ایکٹ کا بل 2017 میں سینٹ میں پیش ہوا
مختلف کمیٹیوں نے اس پر کام کیا اور
بل کو حتمی شکل دینے کے بعد
7 مارچ 2018 کو اس بل پر سینٹ میں ووٹنگ ہوئی
امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب اس وقت سینٹ کے رکن تھے
سراج الحق صاحب کے علاوہ
جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے ارکان بھی سینٹ میں موجود تھے
نہ سراج الحق نے سینٹ میں اس بل کی مخالفت کی نہ جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے کسی رکن نے مخالفت کی
نہ ہی PTI , PMLN , PMLQ یا PPP کے کسی سینٹر نے مخالفت کی
As Salam Alaikum - Bhai Udhaar Book se hum dono ko 100 rupay milenge. Pehle 3 din mai 3 entry karo aur Easyload becho, Rs 100 ka bonus aapka.
Aaj kal apna hisaab aur khata Udhaar Book pe sambhal raha hoon. App bilkul free hai aur 100% safe hai.
Yeh meri personal link hai, download karein: https://bit.ly/3mhkpBY
یوں ہم جنس پرستی کو راستہ مہیا کرنے والا یہ قانون بغیر کسی مزاحمت کے ، بغیر کسی اعتراض کے
سینٹ میں متفقہ طور پر منظور ہو گیا
سینٹ کی کارروائی کا ریکارڈ لف ہے
ٹرانس جینڈر ایکٹ
7 مارچ 2018 کو سینٹ سے پاس ہوا
جبکہ 8 مئی 2018 کو قومی اسمبلی سے پاس ہوا
8 مئی 2018 کو
مولانا فضل الرحمان صاحب بذات خود بطور MNA قومی اسمبلی کا حصہ تھے
فضل الرحمان صاحب کی جماعت کے 13 ایم این ایز قومی اسمبلی میں موجود تھے
جماعت اسلامی کے 4 MNA قومی اسمبلی میں موجود تھے
بل کی مخالفت
جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی ایک خاتون ایم این اے
نعیمہ کشور خان نے
پارٹی پالیسی کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں اس بل کی مخالفت کی
اور ایک ترمیمی قرارداد پیش کی کہ اس بل پر ووٹنگ کروانے سے قبل قومی اسمبلی کی کسی کمیٹی کی طرف بھیجا جائے تاکہ اسکا جائزہ لیا جا سکے
یا اسکو اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف بھیجا جائے تاکہ اسلامی نظریاتی کونسل اسکی شرعی حیثیت کا جائزہ لے
نعیمہ کشور خان کی اس قرارداد پر انکی اپنی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے بقیہ 12 ارکان بشمول فضل الرحمان صاحب نے بھی انکا ساتھ نہ دیا
اس قرارداد کے حق میں نعیمہ کشور خان کے علاوہ
صرف
جماعت اسلامی کی خاتون ایم این اے عائشہ سید نے ووٹ دیا
جماعت اسلامی کے بقیہ تین ممبران اسمبلی نے بھی
حمایت نہ کی
گویا 342 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں دو خواتین کے علاوہ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس بل پر غور و فکر کیا جائے
یا اسکا شرعی جائزہ لیا جائے
تمام ارکان اسمبلی بل کو سمجھے بغیر اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے فورا پاس کروانا چاہتے تھے
بالآخر پیپلز پارٹی کے ایم این اے سید نوید قمر نے ٹرانس جینڈر ایکٹ منظور کرنے کے حوالے قرارداد اسمبلی میں پیش کی
ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالفت میں صرف مذکورہ بالا دو خواتین نے ووٹ دیا
جبکہ بقیہ تمام ارکان اسمبلی بشمول
مولانا فضل الرحمان صاحب اور انکی جماعت کے بقیہ 11 ارکان اسمبلی
جماعتِ اسلامی کے بقیہ تین ارکان اسمبلی
بڑے بڑے آستانوں کے تقریباً 19 سجادہ نشینوں میں سے
کسی ایک نے بھی اس بل کی ذرہ برابر مخالفت نہ کی
دو ووٹ مخالفت میں آئے
بقیہ تمام ارکان اسمبلی نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حق میں ووٹ دے کر منظور کروایا
ایک اور اہم بات
ہم جنس پرستی کے جواز کا یہ قانون جب منظور ہوا
پیر امین الحسنات شاہ صاحب
سربراہ دارلعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف
اس وقت اسمبلی کا حصہ تھے ، وفاقی وزیر تھے
8 مئی کے اسمبلی اجلاس میں موجود تھے
اور اس قانون کے حق میں انہوں نے ووٹ بھی دیا تھا
ٹرانس جینڈر ایکٹ پاس کروانے میں پیپلز پارٹی ، ن لیگ ، ق لیگ ، پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی ، جمیعت علمائے اسلام سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں برابر کی شریک ہیں
7 مارچ 2018 کی سینٹ کی کارروائی اور
8 مئی 2018 کی قومی اسمبلی کی
کارروائی بطور ثبوت موجود ھے دیکھی جاسکتی ھے
یہ ساری باتیں لکھنے والو کی معلومات کے لئے ھیں
اس بل کی تائید میں ن لیگ پ پ پ پی تی آئی جے یو آئی جماعت اسلامی سمیت مذہبی دیندار خانوادوں آستانوں سے متعلق 19 پیر خانے موجود تھے اسمبلی میں گولڑہ شریف پیر سیال سمیت پگاڑہ خاندان بھی اقتدار اعلی قانونی سازی میں موجود تھے اس کے علاوہ اسلامی نطریاتی کونسل کی تائید زبانی علماء امت کی تصدیق اور تائید بھی بھرپور تھی
لوگوں کو یہ کڑوا سچ برا لگے گا مگر حقیقت چھپ نھیں سکتی
Comments
Post a Comment