گستاخوں کی گرفتاری اور تحفظ ناموس رسالتۖ

  


بابا جی کا یہ پیغام نوجوان نسل کے نام👆🏻📢♨️👆🏻📢♨️👆🏻

اس کو سنیں اور اگر کوئی اس کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا تو وہ نیچے سینڈ کیے گے گروپ کو جوائن کرے 👇🏻👇🏻👇🏻

تا کہ ہم سب مل کر گستاخوں کے نمبر کو ریپورٹ کریں ♨️♨️♨️

Follow this link to join my WhatsApp group: https://chat.whatsapp.com/HvBu0am0aAtJ7IIO5Rixey







گستاخوں کی گرفتاری اور تحفظ ناموس رسالتۖ



نوید مسعود ہاشمی 














ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے جوانوں نے راولپنڈی اور فیصل آباد میں کارروائی کرتے ہوئے پیر کے دن سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث مزید دو ملزمان گرفتارکئے ہیں،خبر کے مطابق  مذکورہ گرفتار ملزمان سوشل میڈیا پر توہین باری تعالیٰ،توہین رسالت، توہین مذہب و توہین قرآن پرمبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث تھے،گرفتار ملزمان سے مذکورہ سنگین جرم میں ملوث ہونے کے متعلق تمام شواہد بھی برآمدکر لئے گئے ہیں،عدالتوں میں ناموس رسالت کے دفاع میں گستا خوں کے خلاف مقدمات لڑنے والی تنظیم تحریک تحفظ ناموس رسالت پاکستان کے قائدین کے مطابق ،اس سے قبل تاریخ میں مقدس ہستیوں کی اس قدر سنگین گستاخیوں کی کوئی مثال نہیں ملتی،تاریخ میں پہلی دفعہ ذات باری تعالیٰ،جناب رسول اللہ ۖ،دیگر تمام انبیائے کرام علیہم السلام،اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،مذہب اسلام اور قرآن کریم کی گستاخی،توہین نے  نہ صرف ایک باقاعدہ مہم کی صورت اختیار کر لی ہے  بلکہ یہ ایک بہت بڑا فتنہ بھی بن چکا ہے،جو ہمارے معاشرے کو تیزی سے متاثر کررہا ہے،لہٰذا اس وقت بحیثیت مسلمان ہم سب کا یہ ایمانی فرض ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث مجرمان کے خلاف  اس جہاد کا عملی حصہ بن کر  اس فتنے کو کچلیں اور روز قیامت جناب رسول اللہ ۖ کی شفاعت کے حقدار بھی ٹھہریں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو حقوق آپ کے ماننے والوں پر واجب ہیں  ان میں یہ بھی ہے کہ آپ کی بھرپور مدد ونصرت کی جائے اور آپ کا مکمل دفاع کیا جائے، آپ کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہل ایمان پر  واجب ہے ، حضرت برا بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ  تم مشرکوں کی ہجو کرو (جس نے تمہارے نبی کی شان میں ناز زیبا کلمات کہے، یا ہجو کی ہے)جبریل  تمہارے ساتھ ہیں۔ (بخاری شریف)امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کا حکم دیا گیا ہے، یہ خود امت کے حق میں درجات بلندی کا سبب ہے، ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں۔ اس نے اپنے حبیب ۖکی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا فرض، واجب اور لازم ہے،  یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے اس کے بغیر انسان مومن ہی نہیں ہوسکتا،قرآن کریم نے جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے  آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں اندیشہ ہو، اور وہ گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (سزا دینے کے لئے)اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(سورہ التوبہ) ایک دوسری آیت میں  اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سر تسلیم خم کرنے کو مومنین کا شیوہ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کہ(رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ(ایمان والے) کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا۔(سورہ  النور)حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا ،جب تک اسے مجھ سے اپنے ماں باپ، اولاد اور باقی سب لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔(صحیح بخاری ومسلم، کتاب الایمان)حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں بعض بدبختوں کی طرف سے گستاخی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، خود عہد نبوی میں دربار نبوت کی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے اور آپۖ کی ناموس پرکٹ مرنے والی پاکیزہ ہستیوں نے  ان دریدہ دہن بدبختوں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے،کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا اور ہجویہ اشعار کہتا، حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش پر جاکر اس کی سرکوبی کی۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی)

مدینہ منورہ میں ابو عفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں ہجویہ نظم لکھی، حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پر جاکر اسے واصل جہنم کیا۔(سیر ابن ہشام )فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کردیا گیا تھا، لیکن شاتم رسول ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی، اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے واصل جہنم کیا گیا، ابن خطل کی دو لونڈیوں کا خون بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رائیگاں قرار دیا تھا، کیونکہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔(الکامل لابن اثیر، صحیح بخاری، کتاب المغازی)عہد نبوی کے ان واقعات سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ  توہین رسالت کا جرم ایسا نہیں، جس سے چشم پوشی کی جائے  یا اس سے درگزر کیا جائے، چنانچہ تمام آئمہ کا اس پر اجماع ہے کہ توہین رسالت کا مجرم واجب القتل ہے،علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ہے کہ شاتم رسول کے کفر اور اس کے واصل جہنم ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یہی آئمہ اربعہ سے منقول ہے۔ انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں راجپال نامی بدبخت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مشتمل ایک کتاب لکھی تھی، انگریز کا قانون نافذ تھا، مسلمان بجا طور پر مشتعل تھے، دفعہ  144نافذ کردیا گیا تھی  اور کسی قسم کے جلسے اور اجتماع کی اجازت نہیں تھی، اس موقع پر امیر شریعت حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے جو تقریر کی، اس سے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، انہوں نے فرمایا جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے، پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے، جو ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتے، لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے، وقت آگیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دیئے جائیں، میں دفعہ144  کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتا ہوں۔

 راجپال کو غازی علم دین نے حملہ کرکے ٹھکانے لگایا  اور یوں جس انصاف کو فراہم کرنے میں عدالت پس وپیش سے کام لیتی رہی، ایک عام مسلمان نے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا،مسلمانوں کے جذبات کو مجروح  کے لیے بہت سے بدبخت توہین رسالت اور توہین مذہب کا گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر شیئر کر کے  جہاں اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں، وہاں مسلمانان عالم کو اذیت اور تکلیف پہنچاتے    اور ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں،ایک عام مسلمان کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ناموس رسالت پر کٹ مرنے کو اپنے لئے سرمایہ فخر سمجھتا ہے۔  مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ناموس کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہیں  اور اس کی خاطر اپنی جان ومال کی قربانی کو باعث  افتخار سمجھیں۔

Comments