*حویلیاں میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا مگر ہم ہیں کہ خوش پھر رہے ہیں کوئی فکر نہیں*

 











*حویلیاں میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا مگر ہم ہیں کہ خوش

 پھر رہے ہیں کوئی فکر نہیں*


کیا ہم مسلمان ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں نکالے جانے والے جلوس کو رات کی تاریخی میں گولیوں سے بھون دیا گیا 


تحریک لبیک کے کارکنان کے سروں میں گولیاں ماری گئی جوکہ آر پار ہو گئی انکو پکڑ پکڑ کر گولیاں ماری گئی 


ہم کس منہ سے خود کو مسلمان کہتے ہیں ن لیگ پی ٹی آئی پیپلز پارٹی اپنی جگہ لیکن ان سب سے پہلے ہم مسلمان ہیں وہ جلوس میلاد النبی صلی اللّہ علیہ وسلم کا تھا 


مگر آج تمام سوشل میڈیا صارفین خاموش ہیں اہلسنت خاموش ہیں صحافی خاموش ہیں میڈیا خاموش ہے 


سدھو موسے والا مر جائے تو سارے لبرل لوگوں کا باپ مر جاتا ہے انڈیا کی گلوکارہ مر جائے تو سب کی ماں مر جاتی ہے مگر اپنے ملک میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلوس نکلنے پر 4 لوگوں کو شہید اور سیکنڑوں کو زخمی کر دیا جائے تو کوئی کچھ نہیں بولتا


گھبراؤ نہیں ایک دن عدالت لگنی ہے تم سب کو پتا لگ جائے گا

*آخر کب تک*


کل ایک بہت بڑا سانحہ ہوا جس پر آج پرچم سرنگوں ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کے عوام سوشل میڈیا پر چیختی رہی چلاتی رہی ہزاروں لوگوں کے اجتماع پر گولیاں چلائی جاتیں رہیں مگر کسی صاحب اقتدار کا نشہ نا ٹوٹا 

ہوا کچھ یوں کہ حویلیاں شہر میں عید میلادالنبی کا جلسوس نکالنے پر تاریخ میں پہلی بار شرکاء جلسوس پر  شیلنگ اور اسٹیٹ فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں سیکڑوں زخمی، 4 افراد شہید ہوئے اور دس سے بارہ افراد شدید زخمی ہیں جنہیں گولیاں لگی ہوئی ہیں مگر ملک کا آزاد میڈیا اور امریکہ و یورپ کا پتہ بھی ٹوٹنے پر بریکنگ دینے والہ بے حس اور ستو پی کر سوتا رہا عدالتوں کا بے حس اشرافیہ کی لونڈی اور چھٹی کے دن اور رات کے بارہ بجے ڈرامے بازیاں لگانے والا اور عدالتوں کے دروازے کھولنے والا عدالتی نظام بے حس ہوکر سوتا رہا اور یورپ کی دلال و امریکہ کے ایک اشارے پر جھومنے والی اور آپس میں شدید نفرت رکھنے والیں اور ایک دوسرے کے خلاف تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے ناجانے دینے والی تمام سیاسی جماعتیں بے حس ہوگئیں اور سب سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو ایک وقت کیلئے سانپ سونگھ گیا 

جانوروں اور پرندوں کے حقوق کی خاطر بھی الٹی سیدھی قلہ بازیاں کھانے اور آسمان سر پر اٹھانے  والی انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی رہیں !

ہوا کچھ یوں کہ 12 ربیع الاول کو زیراہتمام تحریک لبیک پاکستان نکلنے والے عید میلادالنبی جلوس پر انتظامیہ کی طرف سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شیلنگ اور پتھراوٴ کیا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوئے جس پر امیر تحریک لبیک پاکستان علامہ سعد حسین رضوی نے اعلان کیا کہ ہم اگلے ہفتے 16 اکتوبر کو اسی مقام پر جلوس نکالیں گے جوکہ جمہوری حق ہے اور اگر تمام سیاسی جماعتوں کے جلسے یہاں ہوسکتے ہیں محرم کے جلوسوں کو فول پروف سیکیورٹی دی جاسکتی ہے تو عید میلادالنبی جلوس کو کیوں نہیں ہوسکتا ؟

اس مسلے کو مقامی عدالت میں لے جایا گیا عدالت نے جلوس کی اجازت دی اور ساتھ انتظامیہ کو سیکیورٹی دینے کے آرڈر دیئے مگر کے پی کے حکومت شرانگیزی پھیلانے کا پلین بناچکی تھی کہ تحریک لبیک کے کارکنان کی لاشیں گرا کر ملک میں شرانگیزی پھیلائی جائے تاکہ عمران خان کے ایجنڈے کو فائدہ ہو اور اس کی بار بار آخری کال کی گیڈر بھبکیاں اس ماحول میں  دب جائیں  ۔ 16 اکتوبر علامہ سعد حسین رضوی جشن میلاد النبی کے ایک بڑے مارچ کی قیادت کرتے ہوئے حویلیاں شہر پہنچے اور پورا دن ایک پتہ ٹوٹنے کی اطلاع بھی نا آئی مگر جیسے ہی رات کا اندھیرا ہوا اور جلوس اپنی منزل پر پہنچا حکومت کے ارادے ناپاک نظر آرہے تھے اس دوران شدید شیلنگ ہوئی قائدین نے جلوس اختتام پزیر ہونے کا اعلان کیا الوداعی دعا ہوئی اور کنٹینر سے واپسی کا اعلان ہوا تو پیچھے سے فورس کی طرف سے اسٹیٹ فائرنگ کھول دی گئی  جوکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آخر امن و امان کی ضامن فورس نے پیچھے سے حملہ کیوں کیا ؟  کیا میلاد النبی کا جلوس نکالنا جرم ہے ؟ 


کیا تحریک لبیک انڈیا یا اسرائیل سے تعلق رکھتی ہے ؟


کیا ریاست عوام پر اسٹیٹ فائرنگ کا حق رکھتی ہے ؟ 


کیا بار بار تحریک لبیک کی لاشیں گرا کر ریاست کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟ 

کیا اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو لبیک والوں کا خون نہیں پانی لگتا ہے ؟ 


کیا بار بار گولیاں کھانے والے اور  شہید ہونے والے تحریک لبیک کے  حفاظ و قاری انسان نہیں ہیں ؟ 


کیا ملک کی چوتھی بڑی جماعت (تحریک لبیک)  کو اپنے منشور کے مطابق کوئی اقدام کرنے کی اجازت نہیں ہے ؟ 


آخر سارے ادارے و تمام سیاسی جماعتیں تحریک لبیک کے خلاف ہی کیوں متحد ہوجاتے ہیں ؟


سوال یہ ہے ! یہ سب آخر کب تک 

x

Comments