*امام اہل سنت اور ہم

*امام اہل سنت اور ہم*





(فرض نماز کی پابندی)

ہمارے معاشرے میں بعض لوگ سیدی امام اہل سنت کا نام تو لیتے ہیں لیکن ان کا قول و فعل امام اہل سنت کے تعلیمات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ آج آپ کو سیدی امام اہل سنت کا فرض نماز با جماعت مسجد میں ادائیگی کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کہ آپ مسلسل آٹھ ماہ بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ اتنے علیل رہے کہ وصیت تک لکھوادی اور چار آدمی کرسی پر مسجد کو لے جاتے لاتے لیکن باجماعت نماز ترک نہیں فرمائی۔


یہاں فتاوی رضویہ سے تین مختلف مقامات پر مختلف سوالات کے جوابات میں مختلف تاریخ پر بیان کی گئی صورت حال ذکر کرتے ہیں۔


(1) علالت کی ابتداء 12 ربیع الاول کی شام ہوئی، جیسا کہ احمد آباد گجرات محلہ جمال پور سے  مولوی عبدالرحیم صاحب نے ۱۳ ربیع الآخر ۱۳۳۹ھ کو استفتاء بھیجا تو خود امام اہل سنت نے فرمایا کہ *میں ۱۲ ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر شام ہی سے ایسا علیل ہوا کہ کھبی نہ ہوا تھا، میں نے وصیت نامہ بھی لکھوا دیا تھا، آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے متصل مسجد ہے چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں۔*


(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 535 رضا فاؤنڈیشن)


*تقریبا 2 ماہ بعد کی صورت حال و کیفیت*


(2) اس کے بعد از موتی بازار لاہور مولوی حاکم علی صاحب نے ۱۴ جمادی الاولی ۱۳۳۹ھ کو ایک استفتاء بھیجا جس کے جواب میں امام اہل سنت نے فرمایا: ادھر طبیعت کی حالت آپ خود ملاحظہ فرماگئے ہیں وہی کیفیت اب تک ہے اب بھی اسی طرح چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد کو لے جاتے لاتے ہیں۔


(جلد 27 صفحہ 199)


*تقریبا 5 (کل 7 ) ماہ بعد کی کیفیت و صورت حال۔*


(3) اس کے بعد از ڈیرہ غازی خان، بلاک ١٢ مولوی احمد بخش صاحب نے ٢١ ذي القعدة ١٢٣٩ کو استفتاء بھیجا تو امام اہل سنت نے فرمایا: فقیر ۱۲ ربیع الاول شریف کی مجلس مبارک پڑھ کر شام سے سخت علیل ہوا کہ ایسا مرض کبھی نہ ہوا تھا، میں نے وصیت نامہ لکھوا دیا، بارے بحمدہ تعالی مولی عزوجل نے شفا بخشی ولہ الحمد، زوال مرض کو مہینے گزرے مگر جو ضعف شدید اس سے پیدا ہوا تھا اب تک بدستور ہے۔ *فرض و وتر اور صبح کی سنتیں بدقت کھڑے ہوکر پڑھتا ہوں باقی سنتیں بیٹھ کر۔ مسجد میرے دروازے سے دس بارہ قدم ہے وہاں تک چار آدمی کرسی پر بٹھاکر لے جاتے اور لاتے،* اور باقی امراض کہ کئی برس سے کاللازم ہیں بدستور ہیں، کبھی ترقی کبھی تنزل،


والحمدﷲ علی کل حال واعوذ باللہ من حال اھل النار۔


تمام تعریفیں ہرحال میں ﷲ تعالی کے لئے ہیں اور دوزخیوں کے حال سے میں ﷲ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں۔


*اتنی سخت علالت کے باوجود زبان پر اللہ تعالی کا حمد و ثناء  جاری، کلمہ شکوہ و شکایت نہیں* 


حاش للہ استغفر ﷲ معاذ ﷲ یہ بطور شکایت نہیں بلکہ صرف معذرت کیلئے اظہار واقعیت، اس کی وجہ کریم کو حمد ابدی ہے بعزته وجلاله سر سے پاؤں تک ایک ایک رونگٹے پر کروڑوں بے شمار نعمتیں ہیں لاکھوں بے حساب عافتیں ہیں۔


وله الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیه کما یحب ربنا و یرضی ملأ السموت وملأ الارض وملأ ما شاء من شیئ بعد والحمد لله رب العالمین۔


حمد اسی کے لئے ہے ایسی حمد جو بہت زیادہ پاک، برکت والی ہے جیسے ہمارا رب چاہے آسمان بھر، زمین بھر اور ہر وہ شیئ بھر جو وہ چاہے، اور تمام تعریفیں اس معبود کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے


(فتاوی رضویہ جلد 15 صفحہ 510 )


اللہ اکبر! اتنا عرصہ اتنی شدید علالت کے با وجود فرض  نماز مسجد میں با جماعت ادا کی اور وہ بھی کھڑے ہو کر ۔۔۔حتی کہ سنت فجر اور وتر بھی کھڑے ہو کر ادا فرمائی۔۔۔۔

😥😥😥😥

اللہ اکبر! یہ ہے سیدی امام اہل سنت علیہ الرحمہ کہ اتنی شدید علالت کہ وصیت تک لکھوا دی، چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں۔ لیکن فرض نماز با جماعت مسجد میں ہی ادا فرما رہے ہیں۔ اور دوسری طرف ہم کہ ذرا سی تکلیف کیا ہوئی مسجد جانا تو دور کی بات ۔ با جماعت پڑھنا تو دور کی بات۔ شاید نماز بھی پڑھتے ہیں یا نہیں۔ امام اہل سنت کے محبین آپ کے اس عمل کو بھی زندہ رکھیں۔ 


نوٹ: اس عرصہ میں جو تحقیقی و تصنیفی کام تھا وہ بھی بدستور جاری و ساری تھا وہ بھی موقوف نہیں ہوا۔۔۔


اللہ تعالی ہم سب کو امام اہل سنت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ 

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


ترتیب و دعا گو:

✍️عثمان جمشید رضوی






Comments